صحافتی صنعت ایک ایسا میدان ہے جس میں مختلف چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، اور ان چیلنجز کا حل تلاش کرنا ایک اہم ذمہ داری بنتی ہے۔
پاکستان کی اخباری صنعت کو جب مشکلات کا سامنا تھا، ایسے میں ایک شخصیت نے اس صنعت کو نہ صرف سپورٹ کیا بلکہ اس کے اندر بہتری کے لئے انقلابی اقدامات کیے۔ اس شخصیت کا نام ہے ارشد خان، جو اس وقت سیکریٹری انفارمیشن کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
ارشد خان کی تعیناتی سے اخباری مدیران کی امیدیں وابستہ ہو چکی ہیں، کیونکہ ان کی فہم و فراست اور اخباری مسائل کو حل کرنے کے لئے کی جانے والی کوششیں بے مثال ہیں۔
ارشد خان کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے جو اخباری صنعت کے مسائل کو نہ صرف سمجھتی ہے بلکہ ان کے حل کے لیے عملی اقدامات بھی کرتی ہے۔
ارشد خان کو محکمہ اطلاعات میں وسیع تجربہ حاصل ہے اور ان کے پاس وہ تجربہ ہے جو اخباری مالکان کے سوچ میں بھی نہیں تھا۔
اللہ تعالی نے انہیں ایک بہترین ذہن اور وسیع تجربہ عطا کیا ہے، جو ان کے لیے اخباری مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
ارشد خان کا یہ منفرد تجربہ انہیں ماضی کے حالات اور موجودہ صورتحال دونوں کے حوالے سے ایک اہم مقام دیتا ہے۔اخباری صنعت ہمیشہ سے چیلنجز سے دوچار رہی ہے، اور موجودہ حالات میں اس صنعت کے مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
ارشد خان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ایک اخبار نہ صرف اپنے مالکان بلکہ اس میں کام کرنے والے کارکنان کی زندگی سے بھی جڑا ہوتا ہے۔
ان کارکنان کے ساتھ ان کے خاندان وابستہ ہوتے ہیں، اور ان کی روزی روٹی اسی صنعت سے وابستہ ہوتی ہے۔ ارشد خان نے ہمیشہ کوشش کی کہ اخباری صنعت کو مضبوط کیا جائے تاکہ اس میں کام کرنے والے افراد کا مستقبل محفوظ ہو۔
جب کرونا کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اس کے اثرات پاکستان کی اخباری صنعت پر پڑے، تو ارشد خان نے اس مشکل وقت میں اخباری صنعت کو بھرپور سپورٹ فراہم کی۔
اس وقت اخباری صنعت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ایک بڑا چیلنج تھا، اور اس چیلنج کو ارشد خان نے قبول کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے کروڑوں روپے کا انیشی ایٹو فنڈ منظور کرایا۔
اس فنڈ کے ذریعے اخباری صنعت کو مالی سپورٹ دی گئی، اور اس کے ساتھ ساتھ صوبائی اخبارات کو اشہتارات ریلیز کرنے کا عمل آسان بنایا گیا۔
ارشد خان نے صوبائی حکومت سے امدادی فنڈ منظور کروا کر اخباری صنعت کو مضبوط کرنے کے لئے مختلف اقدامات کیے۔
ان اقدامات میں اہم ترین یہ تھا کہ انہوں نے اخباری اداروں کے زریعے صوباٸی حکومت کو بھرپور کوریج دی، میڈیا کمپینز چلائیں اور انہیں اپنی مکمل سپورٹ فراہم کی۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خیبر پختونخوا میں تیسری مرتبہ حکومت کو دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی، جو ایک شاندار کامیابی تھی۔
ارشد خان نے اشتہارات کے معاملے میں ایک نیا سسٹم متعارف کرایا، جس سے نہ صرف اشتہارات کی بروقت فراہمی ممکن ہوئی بلکہ ان اشتہارات کی کٹنگ بھی محفوظ کی گئی۔
یہ سسٹم "آئی ایم ایس” کہلاتا ہے، جس سے اشتہارات کی ریلیز اور اس کے بلوں کی درست معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔
اس سسٹم کے ذریعے اخبارات کو نہ صرف بروقت اشتہارات ملتے ہیں بلکہ ان کی کٹنگ بھی محفوظ رہتی ہے، جو کہ اس صنعت کی شفافیت کے لیے ضروری ہے۔
ارشد خان نے ایک اور اہم اقدام کیا جس سے کرپٹ ایجنسیوں سے اخبارات کو چھٹکارا ملا۔ انہوں نے "15/85 پالیسی” متعارف کرائی جس کے تحت اشتہارات کی تقسیم کا عمل شفاف بنایا گیا۔
اس پالیسی کے ذریعے کرپٹ ایجنسیوں کا خاتمہ کیا گیا، اور اخبارات کو ایک مناسب اور منصفانہ تقسیم کا عمل فراہم کیا گیا۔ اس پالیسی کی بدولت اخباری صنعت میں بہتری آئی اور اداروں کو مالی طور پر مستحکم کیا گیا۔
سیکٹری انفارمیشن خیبر پختونخواه ارشد خان کی انتھک محنت اور اخباری صنعت کے لیے کی جانے والی کوششوں کو آج بھی اخباری مدیران اور کارکنان کی دعائیں ملتی ہیں۔
کرونا کے سخت اور مشکل حالات میں اخباری اداروں کی سپورٹ کرنے کی بدولت ارشد خان نے اپنے آپ کو ایک مسیحا کے طور پر ثابت کیا۔
ان کے اقدامات نے نہ صرف اخباری صنعت کو مالی طور پر مستحکم کیا بلکہ اس صنعت کے کارکنان کے لیے ایک محفوظ مستقبل بھی فراہم کیا۔ارشد خان کی شخصیت اور ان کے اقدامات اخباری صنعت کے لیے ایک سنہری باب کی طرح ہیں۔
ان کی فہم و فراست، انتھک محنت اور اخباری مسائل کو حل کرنے کی کوششوں نے انہیں ایک مسیحا بنا دیا ہے۔
ان کے اقدامات کی بدولت اخباری صنعت نے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں کامیابی حاصل کی ہے، اور ان کا یہ کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ارشد خان نے نہ صرف اخباری مالکان کی امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش کی، بلکہ اس صنعت میں کام کرنے والے کارکنان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے بھی اہم اقدامات کیے۔