
عیدالاضحی کا دن ہر سال کی طرح اپنی تمام تر روحانیت، خوشیوں اور اجتماعی عقیدت کے ساتھ ہمارے دلوں کو منور کرنے کے لئے تیار ہے۔
قربانی وہ عمل ہے جو ہمیں سکھاتا ہے کہ محض جانور ذبح کرنا ہی اصل مقصد نہیں، بلکہ اپنی خواہشات کو راہِ خدا میں قربان کرنا ہی سنتِ ابراہیمی کی اصل روح ہے۔
عید الاضحیٰ کے دوران ہمارے شہروں کا ماحول ایثار وقربانی کے جذبے سے سرشار ہوتا ہےلیکن ان مناظر کے پس پشت ایک ایسی غلطی پنہا ہے جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، ایک ایسی غفلت جو سینکڑوں انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
عیدالاضحیٰ کے دن سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی ہر مسلمان کے لئے باعث فضیلت ہے۔ مگرکیا ہم نے کبھی سنجیدگی سے اس بات پر غور کیا ہے کہ قربانی کے بعد ہمارے محلے ، شہر اور گلیاں لہو سے تر کیوں رہتے ہیں، جا بجا پڑی اوجھڑیاں، سِریاں اور جانوروں کی باقیات کئی ہفتوں تک راہگیروں کے لئے باعث تکلیف ہوتے ہیں۔
سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی تو کر دی جاتی ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ شعور اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئےصفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا جو کہ سنتِ محمدی ﷺ کا خاصہ ہے۔
ہر سال عیدالاضحی کے بعد ائیرپورٹس اور پاک فضائیہ کی ائیر فلیڈز سے متصل علاقوں میں جانوروں کی آلائشیں ،چمڑا، ہڈیاں اور گوشت کے تھیلے وغیرہ پھیکنامعمول بن چکا ہے۔
یہ باقیات تعفن گندگی اور بیماریاں پھیلانے کے ساتھ ساتھ چیلوں اور گدھوں جیسے بڑے پرندوں کو بھی اپنی جانب راغب کرتی ہیں جو فضا میں پرواز کرتے ہوئے ہوائی جہازوں سے ٹکڑا کر خطرناک حادثات کا باعث بنتے ہیں۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایک پرندے کا کسی جہاز سے ٹکرنا، کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے؟ ایک عام مسافر طیارہ کئی سو کلومیٹر فی گھنٹہ، جبکہ پاک فضائیہ کا ایک لڑاکا طیارہ اس سے بھی دوگنی رفتار سےپرواز کرتا ہے۔
پرندوں کا طیاروں، خصوصاً لڑاکا طیاروں سے ٹکرانا ایک سنگین فضائی خطرہ ہے، جس کے پیچھے سائنس کےبنیادی قانونِ حرکت اور توانائی کارفرما ہیں
جب کوئی پرندہ تیز رفتاری سے اڑنے والے جہاز سے ٹکراتا ہے، تو اُس کے جسم میں موجود حرکی توانائی طیارے کے کسی بھی حصے کو نقصان پہنچانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
طیارے کی رفتار جتنی زیادہ ہوگی، تصادم کی شدت اورنقصان کی نوعیت بھی اُتنی ہی سنگین ہو گی۔
اگر پرندہ طیارے کے انجن سے ٹکراتا ہے تو اس سے انجن کے پرخچے اُڑ سکتے ہیں، جہاز کا توازن بگڑ سکتا ہے یا انجن مکمل طور پر فیل ہو سکتا ہے۔
اسی طرح، اگر پرندہ کاک پٹ کے شیشے یا طیارے کے اہم حصوں سے ٹکرائے گا تو پائلٹ کی جان کو خطرہ لاحق ہونے کے ساتھ ساتھ طیارے کاتکنیکی نظام متاثر ہو سکتا ہے۔
یہ تصادم بظاہر معمولی لگتے ہیں، لیکن یہ پرندےدراصل پاک فضائیہ کے طیاروں کی لینڈنگ اور ٹیک آف کے دوران گولی یا میزائل جیسی تباہی پھیلاسکتےہیں۔
آپ کی جانب سےعید کے موقع پرنظر انداز کیا جانے والایہ معاملہ درحقیقت ایک ناقابل تلافی عمل ہےجس سے پاک فضائیہ کے اثاثہ جات اور قیمتی انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
سنتِ محمدی ﷺ کی تعلیمات معاشرے میں انسانوں کے لئے آسانی پیدا کرنے کا درس دیتی ہے لیکن یہ غیر ذمہ دارانہ عمل بلاشبہ انسانیت اور دینی تعلیمات کے مترداف ہے۔
پاک فضائیہ کی ائیر بیسز اور ائیرپورٹس حساس ترین ائیر زونز ہیں، جہاں طیاروں کی نچلی سطح پر پروازیں معمول کا حصہ ہیں اور ایک چھوٹی سی لاپرواہی بڑے سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ایسے مقامات پر سخت قوانین، سیکیورٹی سسٹمزاور مسلسل نگرانی کا نظام قائم ہے ۔ہمیں بھی اس شعور اور نظم وضبط کی ضرورت ہے۔
آپ یقیناً یہی سوچ رہے ہوں کہ اس ضمن میں آپکا رویہ اوررد عمل کیا ہونا چاہیے؟
ائیرپورٹس ،پاک فضائیہ کی ائیرفلیڈز اور بیسز کے قریب رہنے والی عوام پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنےاردگرد کے ماحول کو صاف رکھیں ، وضع کردہ قوانین پر عمل درآمد کریں اور بلدیاتی محکموں کے ساتھ بروقت رابطہ میں رہ کراپنے علاقےکی صفائی کو یقینی بنائیں۔
خاص طور پر قربانی شدہ جانوروں کی باقیات مخصوص کردہ جگہوں پر پھینکیں یا انہیں زمین میں دبا دیں۔
مزید براں غیر ضروری خوراک اور گندگی وغیرہ کو ہوائی اڈوں کی حدود سے دور متعین کردہ مقامات پر پھینکیں۔من حیث القوم یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء کو ہوائی اڈوں کے قریب پھینکنے سے گریز کریں اور کسی بھی قسم کے مردہ جانور نظر آنے پرپاک فضائیہ کے بیس حکام یا مقامی ضلعی انتظامیہ کو فوری طور پر مطلع کریں۔
ان احتیاطی تدابیر کو اپنا کر ہم نہ صرف پاک فضائیہ کے طیاروں کا تحفظ یقینی بنا سکتے ہیں بلکہ مادر وطن کے دفاع میں بھی شریک ہو سکتے۔
یہ عمل نہ صرف معاشرتی اعتبار سے مثبت ثابت ہوگا بلکہ فرزندان توحید کی جانب سے سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ انہیں ایک ذمہ دار قوم بھی ثابت کرے گا۔