پشاور(روزنامہ مہم)وزیر اعلی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف، چیف سیکرٹری، انسپکٹرجنرل پولیس، ایڈیشنل چیف سیکرٹریز، متعلقہ انتظامی سیکرٹریز، ڈویژنل کمشنرز اور ریجنل پولیس افسران کے علاوہ اور دیگر متعلقہ حکام نے اجلاس میں شرکت کی۔
انسداد دہشت گردی اقدامات، سیاسی و سماجی اقدامات، قانونی اقدامات، گڈ گورننس کے اقدامات، عمومی اقدامات، مانیٹرنگ اور آگہی ایکشن پلان کے سات بنیادی ستون ہیں۔
ایکشن پلان میں 18 مختلف موضوعات پر کل 84 اقدامات تجویز کئے گئے ہیں اور عملدرآمد کے لئے تمام متعلقہ صوبائی محکموں اور وفاقی اداروں کو ٹائم لائنز کے ساتھ ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں.
ایکشن پلان کے تحت ریاستی نظام پر عوام کے اعتماد کی بحالی کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں گے اور اس سلسلے میں دہشتگردوں کو سزائیں دینے کے لئے ریاستی اداروں کی استعداد کو عملی طور پر نمایاں کیا جائے گا،
شر پسندوں کے خلاف کائی نیٹک آپریشنز کا کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا اور دہشتگردی کا قلع قمع کرنے کے لئے قوانین پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔
اسی طرح ایکشن پلان کے تحت عوامی خدمات کی فراہمی کے عمل کو بہتر بنایا جائے گا جبکہ سکیورٹی اور ڈیویلپمنٹ سے متعلق امور میں عوامی رائے کو شامل کیا جائے گا۔
دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف منظم کاروائیاں عمل میں لائی جائیں گی اور اس سلسلے میں دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کا جامع ڈیٹا بیس مرتب کیا جائے گا،
شیڈول فورتھ کو وقتا فوقتا اپڈیٹ کیا جائے گا اور اس میں شامل افراد کی کڑی نگرانی کی جائے گی، ماہانہ بنیادوں پر دہشتگردوں کے سروں کی قیمتوں کے کیسز کا جائزہ لیکر انہیں اپڈیٹ کیا جائے گا، دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کی سرگرمیوں کی مسلسل نگرانی کی جائے گی، دہشتگردوں کی سہولت کاری میں ملوث پائے جانے والے سرکاری ملازمین کے خلاف سخت انضباطی کاروائیاں عمل میں لائی جائیں گی۔
علاوہ ازیں اضلاع کی سطح پر ماہانہ ڈسٹرکٹ سکیورٹی اسسمنٹ کی جائے گی جس کے ذریعے دہشتگردوں کی نقل و حرکت اور سکیورٹی خدشات کے تناظر میں کائی نیٹک اور نن کائی نیٹک اقدامات تجویز کئے جائیں گے۔
ایکشن پلان کے تحت سول انتظامیہ کو دہشتگردی کے خلاف لیڈ رول دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس مقصد کے لئے پولیس اور کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی استعداد کار میں فاسٹ ٹریک بنیادوں پر اضافہ کیا جائے گا جس کے لئے اس مہینے کے آخر تک پولیس میں بھرتیوں، ٹریننگ، اسلحے اور آلات کی خریداری کا پلان ترتیب دیا جائے گا۔
جنوبی اور ضم اضلاع میں پولیس انفراسٹرکچر کے لئے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں ترجیحی منصوبے شامل کئے جائیں گے۔
ایکشن پلان کے تحت سرحد پار سے دہشتگردی کے واقعات کے تدارک کے لئے جلد سے جلد پالیسی تشکیل دی جائے گی۔
پالیسی کے تحت وفاقی حکومت سے ٹی او آرز کی منظوری کے بعد صوبائی حکومت کا جرگہ افعان قبائلی عمائدین کے ساتھ مذاکرات کرے گا۔ اسی طرح افغانستان کے ساتھ سفارتی سطح کی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لئے معاملہ وفاقی حکومت کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
ایکشن پلان کے تحت اینٹیلجنس کلیکشن اینڈ شئیرنگ کا ایک مربوط نظام وضع کیا جائے گا اور اس مقصد کے لئے مقامی اینٹلجنس ڈیٹا بیس کو متعلقہ صوبائی اور وفاقی اداروں کے ساتھ مربوط کیا جائے گا، صوبائی سطح پر ایپکس کمیٹی، سٹئیرنگ کمیٹی، ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ انٹیلیجنس کوآرڈینیشن کمیٹیوں کا باقاعدگی سے اجلاس منعقد کئے جائیں گے، دہشتگردی کی سرگرمیوں پر عوامی اور کمیونٹی سطح پر کڑی نظر رکھنے کے لئے تھانوں کی سطح پر پبلک لائزان کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی، دہشتگردی کی معاونت کرنے والے تمام غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کاروائیاں عمل میں لائی جائیں گی۔
منشیات، اسلحے اور دیگر اشیاء کی سمگلنگ روکنے کے لئے تمام ٹرانزٹ پوائنٹس پر جدید اسکینرز کی تنصیب کے علاوہ آرٹفیشل اینٹیلجنس مانیٹرنگ سسٹم سے کام لیا جائے گا، نن کسٹم پیڈ گاڑیوں کی پروفائلنگ کا عمل اس سال یکم اگست تک مکمل کیا جائے گا، نن کسٹم پیڈ گاڑیوں کی نقل و حرکت کی نشاندہی کے لئے جی پی ایس ٹریننگ سسٹم سے کام لیا جائے گا۔
بیرون ملک سے فنڈنگ لینے والے مدرسوں کا آڈٹ کیا جائے گا، ادویات میں استعمال ہونے والے کیمکلز کی نگرانی کے لئے ڈیجیٹل ٹریکنگ اور اے ائی بیسڈ مانیٹرنگ کی جائے گی، دھماکہ خیز مواد کی نقل و حمل کی مانیٹرنگ کے لئے بلاک چین ٹریکنگ سسٹم کا استعمال کیا جائے گا، دھماکہ خیز مواد کا کاروبار کرنے والوں کی نگرانی کے لئے نادرا ڈیٹا بیس سے کام لیا جائے گا۔
اسی طرح اسلحے کی اسمگلنگ روکنے کے لئے کراس بارڈر اسمگلنگ روٹس پر مشترکہ کارروائیاں عمل میں لائی جائیں گی، اسلحہ بنانے اور بیچنے والوں کی نگرانی کے لئے آرمز لائسنس سافٹ وئیر کو اپگریڈ کیا جائے گا، اسمگل شدہ آلات کی ٹریکنگ کے لئے الیکٹرانک کارگو ٹریننگ سسٹم کا نفاذ کیا جائے گا جبکہ اسمگلنگ روٹس پر جوائنٹ چیک پوسٹس قائم کئے جائیں گے۔
سماجی اور معاشی شعبے کے اقدامات کے تحت نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور متبادل روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لئے مختلف سرگرمیاں شروع کی جائیں گی، صنعتوں میں نوجوانوں کو روزگار دلانے کے لئے اسکلز اور ووکیشنل ٹریننگز فراہم کئے جائیں گے، ضم اضلاع کے لئے خصوصی ڈسٹرکٹ اکنامک پلانز ترتیب دئے جائیں گے اور ان اضلاع میں اکنامک زونز کے قیام پر کام کو تیز کیا جائے گا۔
ضم اضلاع میں منافع بخش فصلوں کی کاشت کو فروغ دیا جائے گا اور ان فصلوں کی کاشت کے لئے کسانوں کو خصوصی مراعات دئے جائیں گے۔
ضم اضلاع کے عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والی آبادی کاری کے لئے خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔اس سلسلے ان لوگوں کی مرحلہ وار واپسی اور آبادکاری کے لئے پلان ترتیب دیا جائے گا اور ان لوگوں کی بحالی کے لئے متعلقہ علاقوں میں بنیادی ضروریات زندگی کی دستیابی یقینی بنائی جائے گی۔
دہشتگردی کے خاتمے کے لئے قانونی اقدامات کے تحت لیگل فریم ورک کو مضبوط بنایا جائے گا اور اس مقصد کے لئے امتناعی مجسٹریٹسی سسٹم کو بحال کیا جائے گا، پولیس، عدلیہ اور ضلعی انتظامیہ کے مابین کوآرڈینیشن کا مربوط نظام وضع کیا جائے گا جبکہ باہمی تنازعات کے حل کے لئے الٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن مکینزم کو مضبوط کیا جائے گا۔
اسی طرح خیبر پختونخوا انفورسمنٹ اینڈ ریگولیشن ایکٹ کا نفاذ کیا جائے گا۔اس کے علاوہ کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات لائی جائیں گی، عدالتوں میں دہشتگردوں کے لئے خصوصی ٹرائلز کا بندوبست کیا جائے گا، ضرورت کی بنیاد پر انسداد دہشت گردی عدالتوں میں استعاثہ عملے کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔
اسی طرح فیس لیس کورٹس کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔دہشتگردی کے خلاف اور حکومت کے ترقیاتی ایجنڈے اور مفاد عامہ کے کاموں سے عوام کو اگہی دینے کے لئے اقدامات بھی ایکشن پلان کا حصہ ہیں۔ اس سلسلے میں مختلف ذرائع ابلاغ کو موثر انداز میں استعمال کرنے کے لئے کمیونیکیشن اسٹریٹجی تیار کیا جائے گا۔
ایکشن پلان کے تحت عمومی اقدامات میں سیف سٹی منصوبے، اضلاع کی سطح پر سکیورٹی ریویو، گورننس اور ڈیویلپمنٹ سے متعلق معاملات کا باقاعدگی سے جائزہ، انسداد دہشتگردی اقدامات اور سکیورٹی معاملات پر سیاسی اتفاق رائے کے لئے اقدامات وغیرہ شامل ہیں۔ایکشن پلان کے تحت حکومت کے گڈ گورننس اسٹریٹجی پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے ماہانہ رپورٹ تیار کیا جائے گا۔
ایکشن پلان پر صحیح معنوں میں عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے مانیٹرنگ کا موثر نظام وضع کیا جائے گا اور اس سلسلے میں وزیر اعلی سیکرٹریٹ، چیف سیکرٹری آفس، محکمہ داخلہ اور انتظامی سیکریٹریز کو خصوصی ذمہ داریاں دی جائیں گی۔