حالیہ دنوں میں سوات کانجو کینٹ کی توسیع پر ایک منفی پروپیگنڈا شروع ہوا ہے ، لیکن حقیقت تو یہ ہے کے کوئی توسیع نہیں ہورہی ۔کچھ مخصوص عناصر جھوٹی خبروں اور بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سوات، جو پاکستان کا ایک حسین اور سیاحتی مقام ہے، ماضی میں دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا۔ 2009 میں پاک فوج کے کامیاب آپریشن کے بعد یہاں امن بحال ہوا اور ترقی کا سفر شروع ہوا۔ تاہم، حالیہ دنوں میں بعض عناصر کی جانب سے سوات کانجو کینٹ کی مبینہ توسیع کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔
یہ پروپیگنڈا عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکانے اور مخصوص سیاسی و ذاتی مقاصد حاصل کرنے کے لیے پھیلایا جا رہا ہے۔
کینٹ کی مبینہ توسیع کے خلاف جھوٹا بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ فوج مقامی افراد کی زمینوں پر قبضہ کر رہی ہے اور سوات میں اپنی موجودگی بڑھا رہی ہے، حالانکہ حقائق کو دیکھا جائے تو وہ اس کے برعکس ہیں۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق، سوات کانجو کینٹ 8 ستمبر 2015 کو منظور ہوا اور 2016 میں گزٹ نوٹیفکیشن کے تحت اس پر عمل درآمد کیا گیا۔
ضلعی انتظامیہ نے 2016 میں زمین حاصل کی تھی، اس کے بعد کسی اضافی زمین کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔کینٹونمنٹ بورڈ کا کام شہریوں کو صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہے، نہ کہ زمین پر قبضہ کرنا۔
سوشل میڈیا پر ایڈیٹ شدہ تصاویر اور جھوٹے بیانات کے ذریعے عوام میں بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہی مقامی تنظیم، سما لار، پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر منفی پروپیگنڈا کر رہی ہے۔
یہ وہی لوگ ہیں جو ماضی میں بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی مخالفت کرتے رہے اور آج دوبارہ ریاستی اداروں کے خلاف جھوٹا بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ وقت سوات کے عوام کے لیے سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کا ہے۔
جھوٹے نعروں کے بجائے حقیقی ترقی اور امن کو ترجیح دینی چاہیے۔ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جھوٹی خبروں پر یقین نہ کریں ریاستی اداروں کے خلاف منفی بیانیہ بنانے والوں کی اصل نیت کو پہچانیں۔
اپنے علاقے کی ترقی اور امن کے لیے مثبت کردار ادا کریں۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سوات کانجو کینٹ کی کوئی توسیع نہیں ہو رہی، اور اس کے خلاف کیا جانے والا پروپیگنڈا سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ فوج اور ریاستی ادارے اس خطے کے امن، ترقی اور خوشحالی کے ضامن ہیں۔
چند مخصوص عناصر اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے لیے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں، مگر سوات کے باشعور عوام کو چاہیے کہ وہ سچ اور جھوٹ میں فرق کریں اور اپنے علاقے کے روشن مستقبل کے لیے دانشمندانہ فیصلے کریں۔