
ریاست مدینہ اور انصاف کے دعوؤں پر بننے والی پاکستان تحریک انصاف حکومت کے آئے روز نئے کرپشن سکینڈلز سامنے آ رہے ہیں، جو ’’صاف چلی شفاف چلی‘‘ جیسے نعروں کا باھانڈہ کھول رہے ہیں۔حال ہی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں پٹواریوں کی بھرتیوں میں مبینہ کرپشن کے سنسنی خیز انکشافات منظر عام پر آئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، مارچ 2021ء میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے بورڈ آف ریونیو اینڈ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے نوٹیفکیشن کے تحت 24 پٹواریوں کی بھرتی کی۔ تاہم، اس عمل میں غیر قانونی سرگرمیوں اور شدید بے ضابطگیوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جن میں علی امین گنڈا پور کا کردار بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ذرائع کے مطابق مارچ 2022 میں 24 پٹواریوں کی بھرتی کے لیے اشتہار دیا گیا، لیکن 7 جولائی 2022 کو اچانک محکمانہ کمیٹی نے بغیر کسی سرکاری خط و کتابت یا عوامی اطلاع کے ان سیٹوں کی تعداد 24 سے بڑھا کر 36 کر دی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اضافے کا مقصد کرپشن اور مالی فوائد حاصل کرنا تھا۔ ان 12 اضافی سیٹوں کی بندر بانٹ کے نتیجے میں مبینہ طور پر 360 ملین روپے کی کک بیکس وصول کی گئیں۔ذرائع نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی ضلعی انتظامیہ نے وزیر اعلٰی علی امین گنڈا پور کے دباؤ پر زائد العمر اور نااہل امیدواروں کو بھرتی کیا۔ کچھ امیدوار قانونی طور پر اس عہدے کے اہل ہی نہیں تھے، مگر رشوت اور سیاسی دباؤ کے ذریعے انہیں منتخب کیا گیا۔مزید برآں، ذرائع کے مطابق علی امین گنڈا پور نے اپنے فرنٹ مین کے ذریعے بھرتی کے ہر عہدے کے لیے 10 ملین روپے رشوت وصول کی، جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر 360 ملین روپے جمع کیے گئے۔ اس مبینہ کرپشن کے مرکزی کرداروں میں علی امین گنڈا پور کے قریبی ساتھی لطیف نیازی اور نواز شامل تھے، جنہوں نے بھرتیوں میں بے ضابطگیوں کو عملی جامہ پہنایا۔بدقسمتی سے خیبرپختونخوا کے ہر محکمے کا یہی حال ہے۔ ہر محکمے میں کرپشن عروج پر ہے۔صوبے میں دوائیوں اور میڈیکل آلات کا ایک بڑا سکینڈل سامنے آیا تھا جس میں تقریباً 44.58 بلین روپے کی خوردبرد منظر عام پر آئی تھی۔اس کے علاوہ محکمہ اوقاف میں کروڑوں روپے کا ایک اور سکینڈل منظر عام پر آیا تھا جس میں مساجد اور مدارس کو دیئے جانے والے فنڈ میں وسیع پیمانے پر خرد برد کا انکشاف ہوا تھا۔اس کے علاوہ حال ہی میں مردان کی تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن میں بھی کرپشن اسکینڈلز کے شواہد منظر عام پر آئے تھے جس میں 631 اسٹریٹ لائٹس کی خریداری اور تنصیب کے لیے دیے گئے کنٹریکٹ میں صرف 170 نصب کی گئیں لیکن بدقسمتی سے وہ بھی غیر معیاری نکلے۔اس معاہدے میں ٹھیکےکی کل لاگت 50 ملین روپے تھی جس میں من پسند ٹھیکیدار کو 31 ملین روپےبطور ایڈوانس ادا کیے گئے، جو معاہدے کے برخلاف تھا جس کی وجہ قومی خزانے کو 19 ملین روپے کا نقصان ہوا۔ مزید برآں مالی سال 2021-22 میں 171 واٹر کولرز خریدے گئے، مگر صرف 132 نصب کیے گئے۔ یاد رہے اس منصوبے کی مجموعی لاگت 10 ملین روپے تھی، جو ایشین ڈویلپمنٹ گرانٹ کے تحت دی گئی تھی۔ اس میں ٹھیکیدار کو 7.77 ملین روپے ادا کیے گئے تھے، اس طرح قومی خزانے کو 3 ملین روپے کا نقصان پہنچا۔ خیبرپختونخوا کی عوام کا کوئی پرسانے حال نہیں۔ غریب عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جارہا کیونکہ خیبرپختونخوا میں کرپشن کا بازار گرم ہے اور عوام کا پیسہ کرپشن کی نظر ہورہا ہے۔ عوامی مفادات کے تحفظ کے نام پر قائم کی گئی حکومت خود کرپشن میں ملوث نکلے جو انتہائی افسوس ناک ہے۔ کیونکہ یہ کرپشن اسکینڈلز خیبرپختونخوا حکومت کی شفافیت اور احتساب کے دعووں پر سوالیہ نشان ہے اور ان اسکینڈلز کے منطر عام پر آنے کے بعد ان کے انصاف اور ریاست مدینہ نعرے زمین بوس ہوگئے۔