پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی، اور اقتصادی بحران نے ہزاروں نوجوانوں کو غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے پر مجبور کر دیا ہے۔
یہ نوجوان اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر ایجنٹوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے ہیں، جن کے ذریعے وہ غیر قانونی طریقوں سے یورپ اور دیگر ممالک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان ایجنٹوں کا ایک منظم نیٹ ورک پاکستان بھر میں پھیل چکا ہے، اور یہ افراد نوجوانوں کی غریب حالت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں خطرناک اور غیر قانونی راستوں پر روانہ کر دیتے ہیں۔
اس غیر قانونی کاروبار میں بعض حکام، خاص طور پر ایک ادارے کے اہلکار بھی ملوث ہیں، جو ان ایجنٹوں کی معاونت فراہم کرتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ خطرناک کاروبار مزید بڑھ رہا ہے۔
2 جنوری 2025 کو مغربی افریقا سے اسپین جانے والی ایک کشتی میں 86 افراد سوار تھے، جن میں سے 66 پاکستانی تھے۔ کشتی نے موریطانیہ سے اسپین کے لیے سفر شروع کیا تھا، لیکن سمندر میں گہرے پانیوں میں یہ کشتی ڈوب گئی اور اس حادثے میں 50 افراد جان کی بازی ہار گئے، جن میں 40 پاکستانی بھی شامل تھے۔
یہ ایک دل دہلا دینے والا واقعہ ہے، جس نے دنیا کو غیر قانونی تارکین وطن کی مشکلات اور ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے والی حقیقت سے آگاہ کیا ہے۔عالمی حقوق کے گروپ "واکنگ بارڈرز” نے اس سانحے کی تفصیلات فراہم کیں، جن میں بتایا گیا کہ کشتی کا حادثہ اس وقت پیش آیا جب یہ 6 دن تک لاپتا رہی۔ اس دوران تمام فریق ممالک کے حکام کو آگاہ کر دیا گیا تھا، لیکن اسپین کی میری ٹائم ریسکیو سروس نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
12 جنوری کو کشتی کے ڈوبنے کی خبر سامنے آئی، جب اسپین کی میری ٹائم سروس کو اس کی اطلاع دی گئی، تاہم انہوں نے کہا کہ کشتی کے بارے میں انہیں کوئی علم نہیں تھا۔
"واکنگ بارڈرز” کی سی ای او ہیلینا مالینو نے اس سانحے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈوبنے والے افراد نے 13 دن تک سمندر میں اذیت برداشت کی، لیکن ان کی مدد کے لیے کوئی بھی نہیں آیا۔
اس دوران نہ تو کسی نے ان کی مدد کی، اور نہ ہی متعلقہ حکام نے ان کی تلاش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سانحے میں ہلاک ہونے والوں میں 44 پاکستانی تھے، جنہوں نے شدید مشکلات کا سامنا کیا، اور آخرکار ان کی جانیں ضائع ہوگئیں۔
پاکستان میں ایجنٹوں کا نیٹ ورک اتنا مضبوط اور منظم ہے کہ یہ افراد اس کاروبار کو کھلے عام چلاتے ہیں، اور اس میں بعض حکام بھی ملوث ہیں۔ کچھ سرکاری ادارے کے اہلکار ان ایجنٹوں کو معاونت فراہم کرتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ غیر قانونی ہجرت کے راستے مزید محفوظ اور آسان ہو جاتے ہیں۔
ایجنٹ اپنے گاہکوں کو کم قیمت پر غیر قانونی سفر فراہم کرنے کی پیشکش کرتے ہیں، اور ان نوجوانوں کو سمندری راستوں پر روانہ کر دیتے ہیں، جہاں انہیں نہ صرف سردی، بھوک اور پیاس کا سامنا ہوتا ہے بلکہ سمندری حادثات اور انسانی اسمگلنگ کے خطرات بھی لاحق ہوتے ہیں۔
اس طرح کی غیر قانونی ہجرت کے خطرات نے پاکستانی نوجوانوں کو اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر غیر قانونی راستوں کا انتخاب کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان نوجوانوں کی اکثریت کو نہ تو اس سفر کے خطرات کا اندازہ ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ایجنٹ ان سے کتنی بڑی رقم وصول کر کے انہیں موت کے دہانے پر چھوڑ دیں گے۔
واکنگ بارڈرز کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں اسپین پہنچنے کی کوشش میں 10,457 تارکین وطن اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ یہ تعداد صرف ایک سال کی ہے، اور اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غیر قانونی ہجرت کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور اس میں انسانی جانوں کی بے قدری کی حد تک کمی ہو چکی ہے۔
تارکین وطن کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے ایجنٹوں کا کاروبار اس قدر بڑا اور طاقتور ہو چکا ہے کہ اس کی روک تھام کے لیے حکومتوں اور عالمی اداروں کی جانب سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی نے لاکھوں نوجوانوں کو غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے پر مجبور کر دیا ہے۔
اس صورتحال میں ایجنٹوں اور بعض حکام کی ملی بھگت نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس خطرناک کاروبار کی روک تھام کے لیے فوری اور سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
اگر اس سلسلے میں بروقت کارروائی نہ کی گئی تو یہ بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے اور اس میں مزید قیمتی جانیں ضائع ہو سکتی ہیں۔عالمی اداروں کو بھی اس مسئلے پر توجہ دینی چاہیے اور تارکین وطن کے حقوق کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہیے تاکہ ان کی زندگیوں کو بہتر بنایا جا سکے اور انہیں غیر قانونی راستوں سے بچایا جا سکے۔