انیسویں صدی کے آخر تک، پاکستان اور افغانستان کے پشتون ایک ہی خطے میں امن اور بھائی چارے کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کی زبان، ثقافت، اور روایات یکساں تھیں، اور وہ ایک ہی قوم کی حیثیت سے جیتے تھے۔
لیکن 1893 میں، افغان امیر عبدالرحمان نے برطانوی حکومت کے ساتھ ڈیورنڈ لائن معاہدے پر دستخط کر کے پشتونوں کو ایک مصنوعی سرحد کے ذریعے تقسیم کر دیا۔
یہ معاہدہ پشتون قوم کے لیے المناک ثابت ہوا، کیونکہ اس نے ایک ایسی لکیر کھینچ دی جس نے ایک قوم کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔یہ فیصلہ پشتون عوام کی مرضی کے خلاف کیا گیا اور ان کے اتحاد، ثقافت اور جذبات کو بالکل نظرانداز کیا گیا۔
امیر عبدالرحمان نے اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے پشتونوں کے مفادات کو پس پشت ڈال دیا۔
اس معاہدے کے تحت پشتون علاقوں کو افغانستان اور برطانوی ہندوستان کے درمیان تقسیم کر دیا گیا، لیکن یہ سرحد حقیقت میں پشتون قوم کو جدا نہ کر سکی۔
ڈیورنڈ لائن نے پشتونوں کو صرف جغرافیائی طور پر نہیں بلکہ سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر بھی تقسیم کر دیا۔
افغانستان میں شامل ہونے والے پشتون جنگ، غربت، اور عدم استحکام کا شکار ہو گئے۔ خاص طور پر 1980 کی دہائی میں، جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا، تو حالات مزید خراب ہو گئے۔
افغان پشتونوں کو جنگ، دہشت گردی، اور معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا، جس نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی۔
آج بھی، افغانستان کے پشتون انتہائی غیر مستحکم حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ طالبان کے دور حکومت نے افغان پشتونوں کی مشکلات کو مزید بڑھا دیا۔
طالبان نے پشتون کارکنوں، سیاستدانوں، اور دانشوروں کو نشانہ بنایا، ان کے حقوق کو پامال کیا، اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کی۔
پشتون خواتین کو مرد سرپرست کے بغیر باہر جانے کی اجازت نہیں، اور ان کی آزادی پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔ طالبان کے حراستی مراکز میں پشتونوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔
ان پر تشدد، مار پیٹ، اور دیگر مظالم روا رکھے گئے ہیں۔
پشتون خواتین کو جبری شادیوں کا سامنا کرنا پڑا، اور پشتون ثقافت، موسیقی، اور روایات کو طالبان نے "غیر اسلامی” قرار دے کر دبانے کی کوشش کی۔
ڈیورنڈ لائن نے پشتونوں کو ایک ناقابل برداشت تقسیم میں دھکیل دیا۔ یہ معاہدہ نہ صرف ان کی ثقافت، زبان، اور روایات کو نقصان پہنچانے کا سبب بنا بلکہ اس نے خطے میں بدامنی اور عدم استحکام کی بنیاد بھی رکھی۔
عبدالرحمان خان کے اس فیصلے نے پشتون عوام کے لیے ایک ایسی تاریخ رقم کی جو آج تک ان کے زخموں کو تازہ رکھتی ہے۔
جبکہ پاکستان میں تقریباً 50 سے 60 ملین پشتون آباد ہیں جو ایک خوشحال اور مستحکم زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور ہر شعبے میں نمایاں ہیں۔
ان کے برعکس، افغانستان کے پشتون غربت، بیروزگاری، اور جنگ کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔ افغانستان میں موجود تقریباً 15 سے 17 ملین پشتونوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے،اگر ہم دیکھ تو انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کی اگست 2023 ایمرجنسی واچ لسٹ میں افغانستان انسانی بحران کے بگڑنے کے سب سے زیادہ خطرے والے ٹاپ 3 ممالک میں شامل ہے۔
حیران کن طور پر، اس وقت 28.8 ملین افراد فوری مدد کے محتاج ہیں، جو 2022 سال کے مقابلے میں تقریباً 60 فیصد اضافہ ہے۔
اس کے علاوہ، عالمی سطح پر افغانستان خواتین کی شمولیت، انصاف، اور تحفظ کے لحاظ سے 170 ممالک میں سب سے آخری یعنی 170ویں نمبر پر ہے۔
90فیصد تک آبادی غربت کی شکار ہے۔اور 40 فیصد سے زیادہ کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ تعلیمی میدان میں شرح خواندگی صرف اور صرف 37 فیصد ہے جو کے بہتر مواقع کی تلاش میں غیر قانونی طور پر پاکستان آنے کی کوشش کرتے ہیں۔
افغان پشتون علاقوں کو پاکستان کے ساتھ ضم کرنے کی باتیں اکثر سننے کو ملتی ہیں۔ کہ ایسا کرنے سے ان علاقوں میں ترقی اور خوشحالی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
پاکستان میں موجود پشتونوں کی ترقی اور خوشحالی اس بات کا ثبوت ہے کہ افغان پشتون بھی ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ پشتون قوم کو دوبارہ متحد کیا جائے اور ان کی تقسیم کے اثرات کو ختم کیا جائے۔
افغان پشتون، جو جنگ اور غربت کا شکار ہیں، پاکستان کے ساتھ یکجہتی اور بھائی چارے کے ساتھ خوشحال زندگی گزارنے کے خواہشمند ہیں۔پشتون قوم کو دوبارہ متحد کرنے سے نہ صرف ان کے مسائل حل ہوں گے بلکہ یہ خطے میں امن اور استحکام کے قیام میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔