
طبی ماہرین اور سول سوسائٹی کا صحت عامہ کے تحفظ کے لیے جنک فوڈ کے بجائے عوامی صحت کو ترجیح دینے کا مطالبہ
اسلام آباد(روزنامہ مہم)میں منعقدہ ایک مشترکہ اجلاس میں پاکستان کی صف اول کی طبی تنظیموں اور سول سوسائٹی اداروں نے آئی ایم ایف، وزارت خزانہ، ایف بی آر، کابینہ کے اراکین اور دیگر پالیسی سازوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صحت عامہ کے تحفظ کو ترجیح دیں، نہ کہ جنک فوڈ کو۔
ان تنظیموں نے وزارت قومی صحت کی اس تجویز کو سراہا ہے جس میں تمام اقسام کے میٹھے مشروبات پر موجودہ 20% فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) کو بڑھا کر 40% کرنے اور تمام اقسام کے ٹھوس الٹرا پروسیسڈ فوڈز پر 20% ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
انہوں نے بعض صنعتوں کی جانب سے جاری غلط معلومات پر مبنی مہمات کی سخت مذمت کی جن کا مقصد ان اشیاء پر ٹیکس سے بچاؤ ہے۔مقررین نے کہا:”پاکستان اس وقت خوراک سے جڑی غیر متعدی بیماریوں کے سنگین بحران کا شکار ہے۔
لاکھوں افراد ذیابیطس، موٹاپا، دل کی بیماریوں، گردے کے امراض اور مخصوص اقسام کے کینسر جیسے مہلک امراض میں مبتلا ہیں۔ میٹھے مشروبات، جوسز اور جنک فوڈز کا استعمال ان بیماریوں کے بنیادی اسباب میں شامل ہے۔
”انہوں نے خبردار کیا کہ اس سلسلے میں پالیسی میں تاخیر انسانی جانوں کے ضیاع، اسپتالوں کے اخراجات میں اضافہ، اور دائمی بیماریوں کے باعث پیداوار میں کمی جیسے سنگین نتائج کا باعث بن رہی ہے۔
پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ثناء اللہ گھمن نے کہا کہ صنعتی دعووں کے برخلاف، الٹرا پروسیسڈ فوڈز کی مارکیٹ 2020 میں تقریباً 5.7 ارب ڈالر کی تھی اور 2025 تک اس کے 6.9 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے، جو پالیسی مداخلت کی فوری ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔
UPPs کی فروخت ہر سال 10 فیصد جبکہ فاسٹ فوڈ کا پھیلاؤ 15 فیصد کی شرح سے بڑھ رہا ہے، جس سے اس صنعت کے دائرہ کار اور رسائی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
”انہوں نے مزید کہا کہ اعداد و شمار کے مطابق جوس انڈسٹری پاکستان کی کل پھلوں کی پیداوار کا صرف معمولی حصہ گودا سازی کے لیے استعمال کرتی ہے، بعض تخمینوں کے مطابق یہ شرح 2 فیصد سے بھی کم ہے۔
انہوں نے یہ مؤقف رد کیا کہ جوس انڈسٹری کی خریداری میں کمی سے پھل کاشتکار غربت کا شکار ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صنعت صحت مند پھلوں کو غیر صحت بخش جوسز اور نیکٹرز میں تبدیل کر دیتی ہے اور گمراہ کن دعووں کے ذریعے ان کی تشہیر صرف اپنے منافع کو تحفظ دینے کے لیے کرتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں جوسز کی قیمتیں اور ٹیکس بین الاقوامی منڈیوں کے مقابلے میں پہلے ہی کم ہیں، اس لیے برآمدات میں کمی کے دعوے محض ہمدردی حاصل کرنے کا حربہ ہیں۔
انہوں نے ایسے ممالک جیسے میکسیکو، چلی، پیرو، جنوبی افریقہ، اور برطانیہ کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ان ممالک میں ان مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنے سے نہ صرف ان کے استعمال میں کمی ہوئی بلکہ صحت مند خوراک کا استعمال بڑھا، بیماریوں کا خطرہ کم ہوا اور عوامی صحت کے طویل مدتی نتائج میں بہتری آئی۔
مسٹر غلام عباس نے کہا کہ”2021 کے مطابق پاکستان میں صرف ذیابیطس کے علاج پر سالانہ لاگت 2.6 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، جو کہ اس رقم سے دو گنا ہے جو پاکستان آئی ایم ایف سے سالانہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ذیابیطس کے خطرے کا 30 فیصد حصہ میٹھے مشروبات اور جوسز کے بڑھتے استعمال سے جڑا ہے۔
”یہ خدشات پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (PANAH) کے زیراہتمام ایک مشترکہ اجلاس میں اجاگر کیے گئے جس میں ہارٹ فائل، پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس، سینٹر فار پیس اینڈ ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، ڈائبٹک ایسوسی ایشن آف پاکستان، پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹیٹک سوسائٹی، پاکستان کڈنی پیشنٹس ویلفیئر ایسوسی ایشن، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، پاکستان اکیڈمی آف فیملی فزیشنز، میری پہچان، صحافیوں، نوجوان رہنماؤں، طبی ماہرین اور دیگر سول سوسائٹی تنظیموں نے شرکت کی۔
مقررین نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ صحت عامہ کو ترجیح دے اور جمع ہونے والے ٹیکس کو صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری، خوراک اور غذائی تحفظ میں بہتری، اور غریب طبقے کے لیے سماجی تحفظ پروگرامز کے ذریعے صحت مند خوراک جیسے پھل، سبزیاں، دالیں اور دیگر کم پروسیسڈ اشیاء کی سبسڈی میں استعمال کرے۔