پاکستان کی وفاقی حکومت، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایم این ایز، سینیٹرز، صوبائی پارٹی کے قائدین، صوبائی حکومت اور میڈیا سے ایک پُراثر اپیل کی جاتی ہے کہ وہ پختونوں کی سرزمین پر یکجا ہو کر امن و امان کے قیام کے لیے آواز اٹھائیں۔ افغان جنگ کے بعد سے پختون قوم نے نہ صرف دہشت گردی کا سامنا کیا، بلکہ ان کے ہر گاؤں، ہر گھر سے شہداء کے جنازے اٹھتے رہے ہیں۔ آج تک یہ سلسلہ جاری ہے، اور پختون قوم کو یہ سوال ہے کہ کیوں ہم اس جنگ کی قیمت ادا کر رہے ہیں؟ جنگ کی وجہ سے پختون قوم کی نسلوں کی نسلیں اس آگ میں جل رہی ہیں اور 24 سال سے پختونوں کی سرزمین پر دہشت گردی کا ناسور بڑھتا جا رہا ہے۔پختونوں کی سرزمین پر جاری جنگ نے نہ صرف ان کے جسموں کو زخمی کیا ہے بلکہ ان کی روحوں کو بھی کچل دیا ہے۔ کرم کے حالیہ واقعات اس کی واضح مثال ہیں، جہاں امن کی کوششیں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکیں۔ سوال یہ ہے کہ کب تک پختونوں کی لاشیں اٹھائیں گے؟ کیوں ہم مسلسل اس جنگ کی قیمت ادا کر رہے ہیں؟ جبکہ وہی ملک افغانستان جس کی وجہ سے ہماری سرزمین پر جنگ چھڑی، آج وہاں امن قائم ہے، وہاں ترقی ہو رہی ہے، اور پختونوں کی سرزمین پر جنگ کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔وفاقی حکومت اور میڈیا سے درخواست ہے کہ وہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی پختون قوم کی مزید کردار کشی بند کریں۔ موجودہ حالات میں پختونوں کو ہر سطح پر بدنام کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ میڈیا چینلز، ٹاک شوز اور سیاسی بیانات میں پختونوں کو دہشت گردوں کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک سنگین اور بے بنیاد الزام ہے جو پختون قوم کے عزت و وقار کو مجروح کرتا ہے۔ پختونوں کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنا اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا فوری طور پر بند ہونا چاہیے، کیونکہ ایسا تاثر پختونوں کے انسانی حقوق اور ان کی عزت کو نقصان پہنچاتا ہے۔پختون قوم پاکستان کے انتہائی حساس علاقے میں رہتی ہے، جہاں نہ صرف داخلی بلکہ بیرونی طاقتوں کا اثر بھی موجود ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاقے پاکستان کے بارڈر کے قریب ہیں، جہاں غیر ملکی مداخلت اور دہشت گردی کا خطرہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔ پختونوں نے ان علاقوں میں رہ کر نہ صرف پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کی ہے بلکہ انہوں نے اپنی زمینوں کو بھی بیرونی حملوں اور جنگوں سے بچانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔یہ وہ علاقے ہیں جہاں قدرتی وسائل کی فراوانی ہے، جہاں معدنیات اور دیگر قدرتی ذخائر بھرپور ہیں، لیکن ان وسائل کا سب سے زیادہ نقصان پختون قوم کو ہی اٹھانا پڑا ہے۔ افغان جنگ کے دوران پختونوں نے سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان اٹھایا۔ آج بھی جب تک پختونوں کی سرزمین پر امن قائم نہیں ہوگا، نہ صرف یہ صوبے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں گے، بلکہ پاکستان کی معیشت اور سیاسی استحکام بھی خطرے میں رہے گا۔بدقسمتی سے، ایک خاص سیاسی جماعت اور مخصوص میڈیا چینلز مسلسل پختونوں کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کسی ایک سیاسی جماعت کی وجہ سے پورے پختونوں کی شناخت کو دہشت گردوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ایسا پروپیگنڈہ پختونوں کی عزت کو مجروح کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی شناخت کو بھی متاثر کرتا ہے۔ میڈیا پر پختونوں کو بندوق کے ساتھ دکھانے یا انہیں دہشت گردوں کے طور پر پیش کرنے کی مذمت کی جانی چاہیے، کیونکہ یہ ایک سنگین نوعیت کی زیادتی ہے جس کا فوری خاتمہ ضروری ہے۔اسلام آباد میں پختونوں کے مزدوروں کو بھی نہیں بخشا جا رہا۔ یہاں تک کہ اسلام آباد کی بنیاد بھی پختونوں نے رکھی تھی۔ جب پختونوں کے اپنے وسائل اور زمینوں پر سیاست کی جاتی ہے، تو اس سے نہ صرف پختون قوم کی بے عزتی ہوتی ہے بلکہ پورے پاکستان کے مفاد کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔مشرف کے دور سے پہلے پختون قوم کو مہمان نواز، جراتمند اور وفادار قوم کے طور پر جانا جاتا تھا۔ غیر ملکی شخصیات جب پختون علاقوں میں آتی تھیں تو انہیں خوش آمدید کہا جاتا تھا، اور پختونوں کی مہمان نوازی اور شجاعت کی تعریف کی جاتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب پختون قوم کو دہشت گردی یا شدت پسندی سے جوڑا نہیں جاتا تھا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ افغان جنگ اور اس کے بعد کی سیاست نے پختونوں کی سرزمین کو ایک نئی دلدل میں دھکیل دیا۔ آج تک پختونوں کی سرزمین پر جنگ کی لگی آگ کو بجھایا نہیں جا سکا۔پاکستان کی ترقی کے لئے پختونوں کی سرزمین پر امن ضروری ہےافغان جنگ، عراق جنگ اور دیگر عالمی تنازعات کے خاتمے کے باوجود پختونوں کی سرزمین پر جنگ ختم نہیں ہوئی۔ ان علاقوں میں دہشت گردی، لڑائیاں اور امن کی کمی مسلسل جاری ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف ان کے علاقے کی معیشت متاثر ہو رہی ہے، بلکہ وہاں کے لوگ بھی مسلسل عدم استحکام کا شکار ہیں۔ پختونوں کی سرزمین پر جنگ کا تسلسل ایک قومی سانحہ بن چکا ہے جس کا فوری طور پر خاتمہ ضروری ہے۔ جب تک پختونوں کی سرزمین پر امن نہیں آتا، پاکستان کی معیشت اور سیاسی استحکام میں بھی بہتری نہیں آ سکے گی۔پختونوں کے سیاسی رہنماوں کی خاموشی ایک اور سنگین مسئلہ ہے۔ موجودہ سیاسی قیادت کو اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ پختون قوم کی مشکلات اور قربانیاں کب تک نظر انداز کی جائیں گی۔ پختونوں کے حقوق کی پامالی اور ان کی قربانیوں کو بے دردی سے نظر انداز کرنا ایک افسوسناک حقیقت ہے۔ پختونوں کے لئے کوئی واضح سیاسی حل یا منصوبہ نظر نہیں آتا۔ سیاسی قیادت خاموش ہے اور صرف اپنی ذاتی مفادات کی فکر میں لگی ہوئی ہے۔ اس خاموشی کے نتیجے میں پختون قوم کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھتے جا رہے ہیں۔پختون قوم کو سکون، روزگار اور امن کا حق ہے۔ یہ قوم اس قابل ہے کہ اسے اپنے حقوق ملیں تاکہ وہ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دے سکے۔ پختونوں کے لئے معاشی استحکام اور ترقی کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے ملک کی ترقی میں بھرپور حصہ ڈال سکیں۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ انہیں اپنے وسائل، قدرتی ذخائر اور زمین سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ اپنی زندگیوں کو بہتر بنا سکیں۔یہ تحریر ایک اپیل ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے، حکومت اور میڈیا پختون قوم کے ساتھ انصاف کریں۔ پختونوں کو دہشت گردوں کے ساتھ جوڑنا اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پختونوں نے پاکستان کی حفاظت کے لیے بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور انہیں ان کے حقوق دینے کا وقت آ چکا ہے۔ پختون قوم کی ترقی اور سکون سے ہی پاکستان کی ترقی ممکن ہے۔ لہذا، ہم سب سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس قوم کے حقوق کا احترام کریں، ان کے مسائل حل کریں اور انہیں ایک بہتر مستقبل فراہم کریں۔