
بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے پشاور پریس کلب کا دورہ کیا جہاں انہوں نے پریس کلب کو صوبائی حکومت کی جانب سے مالی معاونت کے طور پر 5 کروڑ روپے کی گرانٹ کا چیک پیش کیا۔
پشاور(روزنامہ مہم)اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات محمد خالد، ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات حیات شاہ، پریس کلب کے عہدیداران، سینئر صحافی اور دیگر متعلقہ افراد موجود تھے۔
تقریب کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ پشاور پریس کلب ان کے لیے صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک گھر کی حیثیت رکھتا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت صحافتی اداروں کی فلاح و بہبود کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ سرکاری وسائل کو شفاف، منصفانہ اور مؤثر انداز میں بروئے کار لایا جا رہا ہے تاکہ صحافتی برادری کی پیشہ ورانہ استعداد، تربیت اور ادارہ جاتی ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر وسائل کو درست طریقے سے بروئے کار لایا جائے تو ان کا معاشرے پر کثیرالجہتی مثبت اثر مرتب ہوتا ہے۔
یہی وژن وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی قیادت میں اپنایا گیا ہے، اور اسی وژن کے تحت رواں مالی سال میں دو مرتبہ پشاور پریس کلب کو گرانٹ فراہم کی گئی۔
عمران خان کی رہائی اور سیاسی استحکام کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں مشیر اطلاعات نے واضح کیا کہ کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے سیاسی مذاکرات کے لیے سنجیدہ کوششیں کی گئی ہیں۔
ایک وقت میں باقاعدہ مذاکراتی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی جو حکومت سے بات چیت کر رہی تھی، لیکن بعد ازاں یہ عمل تعطل کا شکار ہوا اور کمیٹی تحلیل کر دی گئی۔
بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے واضح کیا کہ پارٹی کی جانب سے سیاسی، آئینی اور قانونی محاذوں پر مسلسل کوششیں جاری ہیں تاکہ سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کو ممکن بنایا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا، معاشی بحالی اور قومی سلامتی کی پالیسیوں پر مؤثر عملدرآمد ممکن نہیں ہوگا۔ سیاسی استحکام لانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف بنائے گئے بے بنیاد اور سیاسی انتقام پر مبنی مقدمات کا جلد از جلد عدالتی فیصلہ کیا جائے، اور بے گناہ سیاسی قیدیوں کو رہا کر کے انہیں قومی سیاسی دھارے میں شامل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کو دو سال سے جیل میں رکھا گیا ہے، لیکن انہوں نے نہ کسی سے معافی مانگی، نہ ریلیف طلب کیا، اور وہ تمام سختیاں صبر کے ساتھ برداشت کر رہے ہیں۔ "اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عمران خان کو جیل میں رکھ کر سیاسی منظرنامہ تبدیل کیا جا سکتا ہے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔
ریاست، قوم اور حکومت سب کا مفاد اسی میں ہے کہ اس بحران کا پرامن حل نکالا جائے۔” احتجاجی مہم کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں مشیر اطلاعات نے واضح کیا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہدایت پر احتجاجی مہم دوبارہ شروع کی جا رہی ہے جس کے لیے عمران خان صاحب نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔
افغانستان کے ساتھ تعلقات کے بارے سوال کے جواب میں بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے واضح کیا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے بارہا وفاقی حکومت سے تحریری اور زبانی طور پر درخواست کی ہے کہ انہیں اجازت دی جائے تاکہ وہ ایک وفد کے ہمراہ افغانستان کا دورہ کر سکیں اور افغان حکام سے براہِ راست علاقائی امور پر بات چیت کی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی جغرافیائی قربت کی وجہ سے افغانستان میں رونما ہونے والے حالات کا براہِ راست اثر اس صوبے پر پڑتا ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کی سیاسی نااہلی اور سفارتی بے عملی کی وجہ سے نہ صرف صوبے کی کوششوں کو روکا جا رہا ہے بلکہ افغانستان کے ساتھ مؤثر رابطے بھی قائم نہیں ہو پا رہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کوئی بین الاقوامی سفارتی مشن لے کر نہیں جا رہے، نہ ہی قومی سلامتی کے معاملات پر بات کرنا چاہتے ہیں، بلکہ وہ مسائل جن سے خیبر پختونخوا براہ راست متاثر ہوتا ہے، ان پر بات کرنا چاہتے ہیں۔
وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ نے دنیا بھر کے دورے کیے لیکن افغانستان جیسے ہمسایہ ملک کا دورہ نہیں کیا، جو خارجہ پالیسی کی بڑی ناکامی ہے۔
افغان شہریوں کی انخلاء کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں مشیر اطلاعات نے واضح کیا کہ خیبر پختونخوا حکومت جبری بے دخلی کے وفاقی پالیسیوں سے متفق نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم افغان مہاجرین کو اپنے بھائی سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ انسانی، دینی اور قبائلی بنیادوں پر برادرانہ سلوک ہمارا فرض ہے۔
بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ "وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے متعدد بار واضح کیا ہے کہ صوبائی حکومت وفاق کی افغان مہاجرین کے حوالے سے اختیار کردہ پالیسی کو تسلیم نہیں کرتی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ افغان عوام ہماری طرح ایک ہی زبان، ثقافت، مذہب اور ایمان کے رشتے سے جڑے ہوئے ہیں۔
” انہوں نے کہا کہ افغان شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے، ان کا ملک بحرانوں سے دوچار ہے۔ ایسے میں ہم ان کے لیے اپنے دروازے بند نہیں کر سکتے۔
اگر کوئی شخص قانونی دستاویزات کے ساتھ پاکستان میں مقیم ہے تو اسے جبراً بے دخل کرنا نہ انسانی ہے، نہ اسلامی اور نہ ہی پشتون روایات کے مطابق ہے۔
بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے مزید کہا کہ اگر کوئی غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہری ویزے کے تقاضے پورے کرے اور دوبارہ قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہو تو خیر پختونخوا حکومت کو کوئی اعتراض نہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ صوبائی حکومت ان عناصر کے بیانیے کو بھی مسترد کرتی ہے جو افغان شہریوں کو صوبے کے مسائل کا سبب قرار دے رہے ہیں۔ یہ ایک غیرمنصفانہ اور حقائق سے عاری مؤقف ہے۔
سازشوں اور اسکینڈلز کے بارے گفتگو کرتے ہوئے مشیر اطلاعات نے کہا کہ حکومتی جماعتوں کی جانب سے یہ ناکام حکمت عملی اپنائی گئی ہے جو پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ "ہم پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں، سازشیں کی جا رہی ہیں، اور سیاسی رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان تمام کوششوں کے باوجود پی ٹی آئی کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
” انہوں نے واضح کیا کہ ہمیں ان اسکینڈلز سے کوئی خوف نہیں، بلکہ ہمیں یقین ہے کہ جو کچھ ہمارے خلاف کیا جا رہا ہے، وہ دراصل ہمارے لیے عزت اور عوامی حمایت کا ذریعہ بن رہا ہے۔
بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کرپشن کے خلاف پیپلز پارٹی کے احتجاج کو سیاسی منافقت کی اعلیٰ مثال اور مضحکہ خیز قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ کرپشن کی سب سے بڑی علامت اگر کسی جماعت کے ساتھ جڑی ہے تو وہ پیپلز پارٹی ہے۔
2008 کی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں دنیا کے معروف منی لانڈررز کی فہرست میں دوسرا نام ایک ایسے شخصیت کا ہے جو آج پاکستان کے صدر کے منصب پر فائز ہیں
یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے اور سب کے لیے کھلی کتاب ہے۔ ایسے میں کرپشن کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی اخلاقی حیثیت کا اندازہ ہر پاکستانی خود لگا سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے مظاہرے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا "اگر آپ ریڈ زون میں بغیر اجازت داخل ہوں گے، سرکاری املاک کو نقصان پہنچائیں گے، تو قانون حرکت میں آئے گا۔
پولیس نے صرف قانونی اور معقول حد تک طاقت کا استعمال کیا، نہ کوئی گولی چلی، نہ کوئی ماورائے قانون اقدام ہوا۔”
انہوں نے یاد دلایا کہ آج جنہیں ڈنڈا مارنے پر تکلیف ہو رہی ہے، وہی کل اسلام آباد، راولپنڈی اور ڈی چوک پر نہتے کارکنان پر گولیاں چلا رہے تھے۔
18 سے زائد کارکنان کا خون ان کے دامن پر ہے۔ ان کے ہاتھوں میں بندوقیں نہیں تھیں، پھر بھی ان پر ظلم کیا گیا۔