
ارشد خان ایک تجربه کار افیسر هے وزیر اعلی اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
پشاور(روزنامہ مہم)خیبر پختونخوا کی صحافتی برادری اور اخباری مالکان اس وقت ایک بڑے صدمے سے دوچار ہوئے جب وزیرِاعلیٰ علی امین گنڈاپور نے سیکرٹری اطلاعات ارشد خان کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔
یہ فیصلہ ایک ایسی غلطی کی بنیاد پر کیا گیا جو معمولی نوعیت کی تھی اور جسے ایک وارننگ دے کر بھی نمٹایا جا سکتا تھا، خاص طور پر جب رمضان المبارک کا مہینہ چل رہا ہو اور عمومی طور پر غلطیوں کے امکانات زیادہ ہوں۔
ارشد خان ایک نہایت قابل، دیانتدار اور تجربہ کار افسر ہیں، جنہوں نے خیبر پختونخوا کے مشکل ترین حالات میں میڈیا انڈسٹری کو نہ صرف سہارا دیا بلکہ اسے ترقی کی راہ پر بھی گامزن کیا۔
ان کی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کی بدولت صوبے میں میڈیا ہاؤسز کو وہ استحکام ملا جو دیگر صوبوں میں بھی نظر نہیں آتا۔ارشد خان نے خیبر پختونخوا کے اخبارات کی مالی مشکلات کے حل کے لیے ایک مربوط پالیسی ترتیب دی تھی، جس کے تحت میڈیا ہاؤسز کو بروقت ادائیگیاں یقینی بنائی جا رہی تھیں۔
اس منصوبے کے تحت جون 2025 تک تمام بقایاجات کی ادائیگی مکمل ہونا تھی اور تقریباً ایک ارب روپے سے زائد کی ریکنسیلی ایشن کا عمل جاری تھا۔
ارشد خان کی اچانک برطرفی پر خیبر پختونخوا کے تمام چھوٹے بڑے اخبارات اور صحافی برادری نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اخباری مالکان اور مدیران نے اس فیصلے کو غیر منصفانہ اور بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے فوری طور پر نظرِثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
خیبر پختونخواه کے اخباری مدیران صحافی برادری کا کہنا ہے کہ پنجاب اور اسلام آباد میں اشتہارات بغیر وزرائے اعلیٰ اور وزیرِاعظم کی تصاویر کے شائع نہیں ہوتے، تو خیبر پختونخوا میں اگر ایک اشتہار میں وزیرِاعلیٰ کی تصویر آ بھی گئی تو اس پر اتنا بڑا اقدام کیوں اٹھایا گیا؟صحافی برادری اس اشتہار کی ادائیگی قبول کرنے کو بھی تیار نہیں، لیکن سیکرٹری اطلاعات کی برطرفی کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔
ارشد خان کی قیادت میں خیبر پختونخوا کے اخبارات کو سہارا ملا، ان کے جانے سے صوبے کا میڈیا بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ارشد خان نے خیبر پختونخوا میں اخبارات کو مستحکم کرنے کے لیے جو اقدامات کیے، وہ کسی بھی دوسرے افسر کے لیے قابل تقلید ہیں۔
انہوں نے نہ صرف سرکاری اشتہارات کی منصفانہ تقسیم یقینی بنائی بلکہ صوبائی حکومت کی پبلسٹی کے لیے بھی مؤثر حکمت عملی اپنائی، جس کے نتیجے میں تحریکِ انصاف کو مسلسل تیسری بار خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں مدد ملی۔
ارشد خان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے مدیران اور میڈیا مالکان نے واضح طور پر کہا ہے کہ ارشد خان خیبر پختونخوا کے میڈیا کے لیے ایک مسیحا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے مشکل ترین حالات میں اخبارات کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔
ان کی تبدیلی کسی بھی طرح مناسب فیصلہ نہیں، اور ہم اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔”صحافی برادری، مدیران، اور میڈیا مالکان نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ ارشد خان کے تبادلے کا فیصلہ فوری طور پر واپس لیا جائے۔
میڈیا ہاؤسز کے مالی معاملات کو شفاف طریقے سے چلانے کے لیے ان کے وضع کردہ منصوبے کو مکمل کیا جائے۔ مستقبل میں ایسے فیصلے سوچ سمجھ کر کیے جائیں تاکہ صوبے کی صحافتی برادری عدم استحکام کا شکار نہ ہو۔
ارشد خان کی برطرفی صرف ایک فرد کا تبادلہ نہیں، بلکہ اس کا اثر پورے خیبر پختونخوا کے میڈیا پر پڑ سکتا ہے۔ اگر یہ فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو صوبے کی صحافتی برادری شدید ردعمل دے سکتی ہے، جو کسی بھی حکومت کے لیے خوش آئند نہیں ہوگا۔
وزیراعلیٰ کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر غور کریں اور ارشد خان کو ان کے عہدے پر بحال کریں تاکہ خیبر پختونخوا کا میڈیا ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔